Skip to main content

Posts

Bachat Karna Seekhein

 Bachat Karna Seekhein is kahani ma ham apko bata yen gay ki ham kis trah Bachat ki adaat apnaa sakty hain or kis trah ham payi payi payi jor kar aik bari raqam bna sakty hain..... kahani kay dosry hissay ma ham apko bata yen gay ki ha ham kis Trah Allah Talaa ki neemaat ka ziyaa honay se bacha sakty hain. To Khani ko parho or apni raye ka izhaar comment section ma zaroor karen  بچت کرنا سیکھیں فوزیہ اور اسماء ماں دونوں بہنیں ایک ہی سکول میں پڑھتی ہیں ہیں سکول جانے سے پہلے وہ اپنے ابا جان سے جیب خرچ کے لیے کچھ رقم لیتی ہیں ہیں یہ اپنے حصے کی کی رقم اسی دن خرچ کر دیتی ہے ہے جب اسما روزانہ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ نہ کچھ بچا لیتی ہے ہوئے رقم سے اچھی اچھی کتابیں خریدی ہے اور انہیں سے اور بھی کوئی نہ کوئی چیز منگوانی لیتی ہے ۔ مثلاً گھڑی، اچھا قلم خوبصورت ہار وغیرہ سب گھر والے آسماں کی اس عادت کو بہت پسند کرتے ہیں ۔ ایک دن اب جان اسما کیلئے گھڑی لآئے تو فوزیہ ناراض ہوگئی فوزیہ نے اپنی امی جان سے شکایت کی کہ اباجان آسماں کے لیے تو اتنی زیادہ چیزیں لاتے ہیں لیکن مجھے صرف جیب خرچ ہی دیتے ہیں۔

Jhoot Ki Sazaa

 Jhoot Ki Sazaa فرض علی ایک غریب مانگ کا بیٹا تھا اس کی ماں بیمار رہتی تھی اس کا باپ ایک مزدور تھا جو ایک جھگڑے میں بے گناہ مارا گیا تھا علی صبح کے وقت پڑتا اور شام کو کام کرتا کتا ان کے گھر کا خرچ بڑی مشکل سے پورا ہوتا تھا جو پیسے ہوتے مان کی دوا پر لگ جاتے۔ ماں کی بڑی خواہش تھی علی پڑھ لکھ کے ملک و قوم کی خدمت کرے۔ ماں نے نصیحت کی کہ  بیٹا اگر دشمن بھی مشکل میں ہو تو تو اس کی مدد ضرور کرنا ایک دن علی جب سکول سے آیا تو مانگ کی طبیعت سخت خراب تھی سے علی اپنی ماں کو لے کر ہسپتال گیا لیکن ڈاکٹر نے غریب سمجھ کر اسے ٹھکرا دیا۔ علی بہت رویا یا مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی اسی طرح اس کی ماں دنیا سے رخصت ہوگئی ماں کے مرنے کا علی کو بہت دکھ ہوا مگر وہ دل لگا کر پڑھتا رہا آخر ایک دن وہ ایک بڑا ڈاکٹر بن گیا اور غریبوں کا علاج مفت کرنے لگا ایک روز اس کے پاس ایک ایمرجنسی آئی مریض کا بہت سا خون بہ چکا تھا تھا اور اس کے خون کا گروپ کہیں سے نہیں مل رہا تھا لڑکے کے باپ نے روتے روتے التجا کی کہ خدا کے لیے ڈاکٹر صاحب میں نے بیٹے کو بچائیں۔ علی نے جب لڑکے کے باپ کو دیکھا تو وہ وہیں ڈاکٹر تھا جس نے بیس برس

Multan ki tareekh

Multan ki tareekh ملتان کی تاریخ ملتان کو اولیائے کرام کی سرزمین کہا جاتا ہے ہے اس بنا پر ایک ہفتہ پاکستان میں ایک خاص مقام رکھتا ہے ان صوفیاء میں حضرت شاہ شمس حضرت اور شاہ رکن عالم نمایاں ہیں ہیں ان کی سرزمین نے کی صوفی شعراء پیدا کیے جنہوں نے صوفیانہ شاعری کو تقویت دی ان میں شاکر شجاع آبادی بڑی اہمیت کے حامل ہے م شیخ ملتان کی قدامت پر غور کریں  موہنجودارو اور ہر بات پر جیسے سینکڑوں نہیں بلکہ ہر مگر اس کا شکار ہو کر پھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن بزرگ شہر ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا عطا اور آج بھی زندہ ہے ملتان کو کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرنے والے حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے لیکن ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہیں  کشتیوں کے ذریعے صرف سکھر اور بھکر ہی نہیں بلکہ عراق ایران اور دکن تک تجارت ہوتی اسی طرح کو تجارتی اور مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں اس خطے سے اسلام کو پھیلانے کے لیے پیغام پہنچا۔ قیام پاکستان کے بعد ملتان نے بہت ترقی کی پرانا شہر تو اپنی تنگ گلیوں اور بازاروں سمیت چھ دروازوں میں گرا ہوا ہے یعنی دلی گیٹ، لوہاری، حرم گی

kamyabi ke liye sabr aur istiqamat

kamyabi ke liye sabr aur istiqamat  کامیابی کے لیے صبر اور استقامت صبر و استقامت تحمل اور بردباری ساری دنیا کے عظیم لوگوں کا شیوہ ہے صبر انسان کی ایک اعلی فضیلت ہے کبھی صبر اور سستی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور تقدیر اور ظلم پر راضی رہنے میں اشتباہ ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ کی صبر و استقامت کامیابی کی ضمانت ہے جب کی سستی اور کاہلی بختی اور برے انجام کا سبب ہے مثال کے طور پر ایک مالی چاہتا ہے کہ اس کے باغ کے احاطے میں اتنے پھول کھلے ہوں کہ پورا ماحول خوشبو سے معطر رہے ہے اور پھولوں کے مختلف رنگ آنکھوں کو خیرہ کر یں اور باغ کا ماحول اچھا لگے لگے مالیہ گڑھ یہ آرزو رکھتا ہے تو اسے محنت کرنی چاہیے سردی گرمی برداشت کرنی چاہئے کانٹوں کے چبھن کا عادی ہوجانا چاہیے۔ وقت باغ کا معائنہ کرنا چاہیے ایک علیحدہ کو حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی تکلیف برداشت کرنا صبر کہلاتا ہے ہم اپنے کالج کی مثال لیتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ کالج میں جو لڑکا اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ٹائم ٹیبل کا پابند ہے اور جو آپ نے اپنے اوقات کو کو اچھے کاموں کی طرف خرچ کرتا ہے وہ زیادہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتا ہے اور اساتذہ کا زیادہ محبوب ہو

dosti

dosti   دوستی سچا دوست ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ایک جسم میں دو جانیں فارسی میں اسے ایک جاں دو قالب کہتے ہیں دو جانوں کا مطلب ہے کہ دو الگ الگ روحیں ہوں لیکن ان کی سوچ زندگی گزارنے کا طریقہ دوسرے انسانوں کے ساتھ برتاؤ کا اندازہ ایک جیسا ہو دوست وہ ہوتا ہے جو ان لوگوں کو پسند کرے جن کو دوسرا دوست پسند کرتا ہے اور ان کو ناپسند کرے جن کو دوسرا دوست بننا پسند کرے دوست تلاش کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے کہتے ہیں کہ دوست تلاش کرتے وقت ایک آنکھ بند کر لی جائے تب اس کی خامیاں اور کوتاہیاں نظر نہ آئے لیکن جب دوست بنا لیا تو دونوں کے بند کر لی جائے تا کی اس کی کوئی غلطی نظر نہ آئے میرے خیال میں میں دوستی آپ لوگوں کو میٹھے خربوزے کی تلاش میں سو خربوزے چیک کرنا ہوں گے مصیبت کے وقت مصنوعی مجبوریاں پیش کرنے والے لوگ لوگ مصلحت پسند اور مطلب پرست ہو سکتے ہیں لیکن دوست کبھی بھی نہیں ہو سکتے خوشحالی دوست بنانے کی وجہ سے آتی ہے اور مصیبت دوستی کو آزماتی ہے اگر کوئی مصیبت میں میں ساتھ چھوڑ جائے آئے تو دوست نہیں کہلا سکتا۔ دوستی نام ہی اعتماد کا ہے خلوص محبت محبت اور وفا کا ہے۔دوستی میں احترام ضروری ہے ہر نئی چیز خوبص

hub duniya

hub duniya  حب دنیا حب دنیا سے مراد ہے دنیا کی محبت۔ انسان آخرت کو بھول کر صرف اسی دنیا کا ہو جائے تو یہ حب دنیا ہے۔  ہر وقت یہاں کی رنگینیوں میں کھو یا رہے اور اپنی طرف سے یہ سمجھے کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں رہے گا تو یقینا اس کے اندر طرح طرح کی برائیاں آنا شروع ہو جائیں گی یہ سب حب دنیا کا شاخسانہ ہے۔ طولانی آرزوئیں جو خود بے دنیا کی اولین علامت ہے ہے انسان کی آرزوئیں اور خواہشیں کبھی ختم نہیں ہوتی یہاں تک کہ اسے یہ دنیا ہی چھوڑ ہی پڑ جاتی ہے سائیکل سے اسکوٹر پھر گاڑی اور پھر نئی گاڑی۔۔۔۔ عام ق موبائل فون پھر کیمرہ اور پھر ٹچ موبائل۔۔۔۔۔ڈیسک ٹاپ پھر لیپ ٹاپ اور پھر ٹیبلیٹ۔ انسان کی یہ آرزوئیں جب پوری نہیں ہوتی تو وہ ہمہ تن اور ہمارا وقت رنج و غم کی کیفیت میں مبتلا رہے اور جو کچھ اس کے پاس ہوتا ہے مگر رہتا ہے اور جو نہیں ہوتا اس پر نظریں رہتی ہے۔ جو شخص دنیا سے محبت کرتا ہے وہ موت سے بڑھ جاتا ہے جب بھی کسی کی موت ہوتی ہے تو اس کا سبب وہ انسان کو ہی ٹھہراتا ہے اگر ایسا کرتا تو وہ نہ مرتا جیسے کہ اس نے آب حیات پیا رکھاہو بیماری سے اگر کوئی مر جائے تو کہتے ہیں وقت پر علاج کرتا تو نہ

shakhsiyat ki taamer

shakhsiyat ki taamer  شخصیت کی تعمیر انسانی شخصیت کی تشکیل میں اخلاق حسنہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے حیات انسانی کے ہر شعبے میں اخلاقی قوت کا وجود تھے رے کو سنوارتا ہے اخلاق کی حکومت اللہ تعالی نے انسانیت کو عطا کی ہے جسے ہم اپنے عزم  صمیم اور ارادہ و تربیت سے بری کثافتوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ہم ہم اخلاقیات کو ایک مذہبی اور روحانی سچائی کے طور پر لیتے ہیں حالانکہ اس کا تعلق انسان کے ان افعال سے ہے جو اسے کسی بہتر سماج کی حالتیں کر واقعی تک لانے کا باعث بنتے ہیں اس کے لیے ہر فرد کے ظاہر و باطن کی اصلاح بہت ضروری ہو جاتی ہے اچھا یا برا ہونا ارادے نیک ارادہ نہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ شخصیت کی تعمیر کے لیے عزم کی مضبوطی کا ہونا بہت ضروری ہے اگر ہم شخصیت کی مضبوطی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اخلاق نور اور اجالے کی طرح ایک دوسرے سے پیوست رکھنا ہوں گے اگرچہ اخلاقی اقدار فطرت انسانی کا حصہ ہیں لیکن اب نہیں رکھتی ہے اور انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ ذہنی قوتوں سے نشوونما پاتی ہے لیکن اس نشونما کے لیے ریاضت و مشق ایک اساسی شرط کا درجہ رکھتی ہیں ۔ شخصیت کی تعمیر کے لئے اخلاق حسنا اور اخلاق حسنہ کی