Skip to main content

Posts

نئی ہوائیں چلی ہیں چراغ کندکی اور

  نئی ہوائیں چلی ہیں چراغ کندکی اور قوموں کی زندگی میں تقلیب کا عمل  جاری رہتا ہے  بعض اوقات شکست کے مرحلے میں خیالات منتشر ہونے لگتے ہیں ہیں حالانکہ تقلیب کے عمل کی تکمیل ریخت سے ہوتی ہے۔ گویا شکست و ریخت بظاہر دو طرفہ عمل ہیں مگر اپنی اصل میں یہ دونوں ایک ہیں لیکن اس صورت میں جب محرکات مثبت ہوں ورنہ یہ منقلب ہونے کی بجائے کار تخریب کہلائے گا۔ ہم قیام پاکستان سے ہی اس عمل سے گزر رہے ہیں اور ہنوز ہمارے اندر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں یہ تغیرات کہیں فکری سطح پر طلوع ہوتے ہیں تو کہیں عملی تہ پر۔ دونوں سطحوں پر اس کے اثرات پوری طرح جگمگاتے ہیں دراصل ہیں اثر پذیری سے بڑھ کر تعامل کا مرحلہ ہے جہاں بہت کچھ تبدیل ہوتا ہے جہاں سبب اور مسبب گاہے یکجا ہوتے ہیں اور کبھی کبھی ان میں سے ایک پس منظر میں چلا جاتا ہے ہے ایسے میں صحیح اندازہ لگانا قدرے مشکل ہو جاتا ہے ہے اسی وجہ سے صحیح ذہنیت رکھنے والے لوگ بھٹک جاتے ہیں وہ تندرست میں ہوتے ہیں لیکن وسیع تناظر میں ایسا نہیں ہوتا۔ فکر کی اس قدر کجی کو رفع کرنے کی خاطر لازم ہیں کہ قوم کی ان سطور پر تربیت کی جائے جہاں آفاقیت کا اظہار موجود ہو جہاں امکانات و

Sirf Aik Cup Part 2

Sirf  Aik Cup Part 2  اس سے لوگ نشے کے عادی بن کر بے کار ہوجائیں گے اسد نے بھی نفرت بھرے لہجے میں کہا۔۔ عمران منہ پھلا کر بولا لو جناب میں ان کے فائدے کی بات کرتا ہوں اور یہ دور کے چکروں میں پڑ گئے پھر اس نے کچھ ایسے دلائل دیے کہ سیفی کو اپنی بات کا قائل کرلیا۔اسد نے جب یہ صورت حال دیکھی تو واک آؤٹ کر گیا پھر وہاں سے وہ اپنے اپنے گھروں کو چل دیے سیفی جب اپنے گھر پر پہنچا تو خاصا خوش دکھائی دیتا تھا اس کی امی نے جب وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں ہوٹل کھولوں گا۔ اس کی امی نے کہا کہ تمہیں تو چائے بنانی نہیں آتی ہوٹل کیا کھولو گے سیفی نے کہا کہ ایک ملازم رکھ لوں گا اسے اچانک خیال آیا کہ ہمارے گاؤں سے  ایک لڑکا ہر روز شہر میں ہوٹل پر ملازمت کے لئے جاتا ہے میں اسے اپنے ساتھ رکھ لوں گا۔چنانچہ دوسرے ہی دن وہ اس علاقے میں گیا جہاں نیا صنعتی زون بن رہا تھا تھا اسے اپنی پسند کا ایک کمرہ بھی کرائے پر مل گیا دو تین دن بعد اس نے کام شروع کر دیا ابھی عمارت دھڑا دھڑ تعمیر ہو رہی تھی چند ایک کارخانے بھی مکمل ہو چکے تھے تاہم انہوں نے ابھی کام شروع نہیں کیا تھا مزدوروں کے لیے یہ چھوٹا سا ہوٹل بہت بڑی نع

sirf aik cup part 1

sirf aik cup part 1   صرف ایک کپ یہ کہانی تین دوستوں کی ہے ہے اسد عمران اور سیفی کے ناموں سے وہ جانے جاتے تھے تینوں سکینڈ ائیر میں تھے ایک ہی گاؤں میں رہنے کی وجہ سے ان میں گاڑھی چھنتی تھی۔ اسد اور عمران سیفی کی بہ نسبت معاشی طور پر خوشحال گھرانوں کے چشم و چراغ تھے یہی وجہ ہے کہ سیفی سکینڈ ائیر کے بعد ملازمت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ان کے امتحانات شروع ہونے میں دو ماہ رہتے تھے۔۔۔۔ امتحان ہوا ۔۔۔۔ رزلٹ نکلا تو تینوں دوست اچھے نمبروں سے کامیاب ٹھہرے اسد اور عمران نے تھرڈ ائیر میں داخلہ لیا اور سیفی نے ملازمت کی تلاش شروع کی۔ کئی شہروں میں خاک چھاننے کے باوجود ڈھاک کے تین پات والی حالت تھی۔ کئی جگہ اس نے درخواستیں دیں کئی دفاتر میں انٹرویوز دیے مگر ملازمت کی دیوی مہربان نہ ہوئی اور کئی وجوہات تھیں وہاں سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ جس پوسٹ کے لئے تین آدمیوں کی ضرورت ہوتی وہاں تین سو امیدوار ہوتے ایک انار سو بیمار ایک شام تینوں دوست حسن اتفاق سے اکھٹے ہوگئے ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں سیفی نے اپنی ملازمت کا ذکر چھیڑا تو اسد اور عمران کو یہ سن کر افسوس ہوا کہ ابھی تک ملازمت نہیں ملی۔۔۔۔ عمران نے مسکر

A teacher at his best

اپنے بہترین استاد غریب بچوں کو پڑھانا اور پڑھانا ان کا پیشہ تھا اور اس نے اسے سراسر محبت سے اپنایا۔ وہ کبھی کبھار اسے اپنی دوسری فطرت کہنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ جب بھی اسے گاؤں میں دیکھا جاتا وہ ہمیشہ اس کے ساتھ بچوں کے درمیان ہوتا۔ ہر دور کے بچے اس کے شاگرد اس کے دوست اس کے بیٹے اور سب کچھ تھے۔ ماسٹر شریف ان کا نام تھا اور وہ ہمیشہ پکارتے تھے اس لیے وہ نسل کے استاد تھے ان کے شاگردوں میں سے کچھ پوتے تھے اور ان کے والد اور دادا ان کے طالب علم ایک بار جب انہوں نے میل کیا تو انہیں ان کے گالوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے وہ اپنے والد کے دادا کو سوئے تھے اور شاید ہوں گے۔ بیٹے ماسٹر صاحب درمیانے قد کے نمایاں ناک اور چمکتی ہوئی کالی داڑھی والے نوجوان تھے ان کی داڑھی بالکل گھنی تھی جتنی سڑک کسی باج کے درخت کی تھی اور اتفاق سے سکول میں ایک اوندھا درخت تھا جس میں وہ پڑھانے جا رہے تھے وہ ایک آدمی تھا۔ سرفیس ٹکٹ کا اور ہمیشہ اپنے آپ کو ضرورت مند رکھتا تھا اور نہانے کے بعد سفر کی صفائی کرتا تھا اس کا اپنا گاؤں بالکل نہر کے دائیں کنارے پر تھا اور ہائے دہلی کام سے واپس آتے ہوئے نہر کے کنارے پیدل جایا

Zindagi Ka Aik Saanha

Zindagi Ka Aik Saanha  زندگی ہمارے لئے اللہ تعالی کی طرف سے ایک عظیم الشان تحفہ ہے اس کی وج ہ سے ہی دنیا میں روزانہ نت نئے حالات و واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں بعض واقعات اس قسم کے ہوتے ہیں جن کے نقوش دل وہ دماغ پر رہ جاتے ہیں اور پوری زندگی نہیں مٹتے اسی قسم کا ایک واقعہ میری زندگی میں پیش آیا یہ حصہ واقعہ ہے کہ جس کو میں بھلانا بھی چاہوں تو نہیں بھلا سکتا یہ واقعہ بالکل سری نوعیت کا محسوس ہوتا ہے لیکن جو میری طرح حساس طبیعت کے مالک ہیں ان کے لیے بڑا معنی خیز ہے اس کے ساتھ مری جا رہا تھا تو راستے میں ایک مرغی اپنے چوزوں کے ساتھ سڑک سے گذر رہی تھے ایک تیز رفتار کار گاڑی نے اچانک ایک چوزے کو کچل دیا اس مرغی کے کچلے ہوئے چوزے کو دیکھ کر میرا دل ایک عجیب احساس سے لبریز ہوگیا اب اگر کوئی شخص مجھ سے کسی بھی ابھی وفات کا ذکر کرتا ہے تو مجھے وہ واقعہ یاد آجاتا ہے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سانس آئے گا بھی یا نہیں نہیں یہ سوچ کر میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں ہو کہ آفات ناگہانی سے پناہ ملے مجھے زندگی دوسروں کی مدد اور غمگساری میں بسر ہو آمین Life is a great gift from Allah Almighty for us, because

My Childhood Friend

My Childhood Friend  میرے بچپن کے دوست صرف دوست ہی نہیں بلکہ اچھے بھائی بھی ہے ہے میری رہائش کچھ عرصے سے سے ڈی ٹائپ میں ہے اس لیے میں اب بھی نہ ایک بار اپنے دوستوں سے ملنے چلا جاتا ہوں ہو جب میں ان سے ملتا ہوں تو وہ سب بہت شفقت اور عزت سے ملتے اور گپ شپ کرتے ہیں ہی میرا سب سے اچھا دوست معاذ ہے راز دشمن سے میرے ساتھ کھیلنے کا شوقین ہے یوں سمجھیں بچے کی محض جیسا دوست ملا تو مجھے سب کچھ کا شوقین ہوں مجھے معاذ نے اچھا گول کیپر بنا دیا مزے کی بات یہ ہے کہ خود معاذ کرکٹ کا بھی شوقین ہے ہے وہ بالنگ اچھی کر آتا ہے اس کی بال پر میں اکثر آؤٹ ہو جاتا ہوں  ایک دفعہ میں نے اور معاذ نے پروگرام بنایا کہ ہم کرکٹ کا ٹورنامنٹ کرواتے ہیں جس میں دو دو کھلاڑی ہوں گے جن کا نام بی پی ایل ہوگا مجھے یاد ہے کی محاذ جیت گیا معاذ غصہ نہیں کرتا لیکن اپنی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہے اسے کبھی اچانک غصہ آجاتا ہے ہے پھر اس کے غصے کا نشانہ مومن میں مظلوم ہی ہوتا ہوں  آلو کے چپس اسے بہت پسند ہے ہم سب دوست مل جل کر دعوتی اڑانے کے بھی بہت شوقین ہیں اور ان دعوتوں اور ضیافتوں سے تمام دوستوں کو بہت مزہ آتا ہے ہے معاذ سب سے خوش

Birds are the beauty of the universe

Birds are the beauty of the universe   پرندے کائنات کا حسن ہیں انسان کا پرندوں سے تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود انسان کا انسان سے ، جس طرح حضرت انسان اس کائنات میں اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتا ہے اسی طرح پرندے بھی اس کائنات کی خوبصورت مخلوق ہیں ۔ پاکستان میں تقریباً 786 قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں ان میں بہت سے پرندے ایسے ہیں جو کبھی کبھار پاکستان آتے ہیں یعنی دوسرے ملکوں سے ہجرت کر کے پاکستان آتے ہیں اور کچھ عرصہ پاکستان میں گزارنے کے بعد اپنے علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں یہ مہمان پرندے ہمارے ماحولیاتی حسن کو مزید حسین بناتے ہیں ۔ دور جدید کی مصروف زندگی میں انسان کو جن آوازوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ پرندوں کی خوبصورت سریلی آوازیں ہیں جس سے انسان اپنے کئی غم بھول جاتا ہے ۔ گو کہ اب شہری زندگی میں ایسی سریلی آوازوں سے انسان کا واسطہ کم ہی پڑتا ہے لیکن دیہات میں اب بھی پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر ہم ان خوش الحان پرندوں کی آواز سے مسحور ہوسکتے ہیں ۔ سردیوں کا موسم ہو یا گرمیوں کا، بہار ہو یا خزاں پرندے صبح سویرے اپنی خوبصورت آواز سے لوگوں کو جگاتے ہیں اور صبح ہونے کا پیغام دیتے ہیں